& The Last One #Tekkai_Lake
حسن پردوں میں رھے تو محفوظ رہتا ھے۔ قدرت کی خوبصورتی کے تمام تر شاہ کار چھپے ہوئے ہوتے ہیں, تہہ در تہہ, اندر ہی اندر کسی راز کی طرح جیسے سینے میں محفوظ کر لیا گیا ہو۔ اِنکو دیکھنے کی چاہ، جاننے کا شوق اور کھوجنے کی آرزو اِس سفر کا آغاز ھے۔ شایداِسے تلاش کا سفر کہتے ہیں۔ اس سفر پر نکلنے والوں کی تعداد تو بہت ہوتی ھے لیکن منزل ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتی۔
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں
منزل پر پہنچتے ہیں دو ایک
چاہت میں قدم قدم پر آزمائش ملتی ھے۔ رکاوٹوں سے گھبرانے والوں کے نصیب میں منزلیں نہیں ہوا کرتی بلکہ منزل خود اپنا مسافر چنتی ہے۔ ایسا مسافر جو منزل تک پہنچنے کے لیے ھر طوفان سے لڑ جائے۔ جسکی آنکھیں دید کی طلب میں سلگتی ہوں- جسکے پیروں نے میلوں خاک چھانی ہو اور جو زیر لب گنگناتا ہو۔
تجھے دیکھنے کی جو لو لگی
تو نصیر ____دیکھ ہی لیں گے ہم
تو ہزار آنکھ سے ______دور ہو
تو _____ہزار پردہ نشیں سہی
جھیل کے کنارے ہر سال بے پناہ پھول کھلتے تھے اور مسافر کے انتظار میں گھوم گھوم کر ہر جانب دیکھتے تھے۔ کبھی خوش گمانی سے لہلہانے لگتے تو کبھی مایوسی سے سر جھکا لیتے اور انتطار کی گھڑیاں اگر لمبی ھو جاتی تو یہ سارے پھول پتا پتا ٹوٹ کر بکھرنےلگ جاتے۔ اس بار جو پھول جھیل کنارے کھلے تھے ویسے پہلے کبھی نہیں کھلے۔
بادِ صبا نے ایک مسافر کے قدموں کی آہٹ کی خبر پھولوں تک پہنچائی تو خوشی کے حسین رنگ لیے خوبصورت پھول مذید کھل اُٹھے۔ آنے والے نے جھک کر پھولوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور قریب ہی زمین پر بیٹھ گیا۔ کچھ راز و نیاز کی باتیں ھوئیں، رنگوں سے بھرے پھول سر ہلا ہلا کر ہر بات سنتے اور جواب میں انکے رنگ مذید شوخ ہو جاتے تھے، جیسے عاشق محبوب کے حسن کی تعریف کرتا ھے اور محبوب کا چہرہ شرم سے لال پیلا ھو جاتا ھے۔ مسافر بہت دور سے انکے درشن کے لیے آیا تھا اور انکو اپنی آنکھوں میں سمو لینا چاہتا تھا۔ انتظار کی آگ میں جلتی آنکھوں میں دہکتے انگاروں کو دید کی پھوار ٹھنڈا کر دیتی ہے۔ پھول اور مسافر دونوں وقتی ٹھنڈک کے حسار میں تھے۔
شام کے سائے پھر سے پھیلنے لگے، بادلوں نے گھیرا تنگ کر لیا، ایک صدا آئی اور واپسی کا حکم صادر ہوا۔ جھیل کے پانی کا شور ایک دم تھم گیا جیسے جھیل نے چپ کا روزہ رکھ لیا ھو اور مسافر کو کہتا ہو۔
سنو۔۔۔۔۔تم نے یہ تو کہا تھا کہ تم یہاں تک آؤ گے لیکن واپسی کا تو کہیں ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ جو ھجر میں جل جل کر کالا پڑتا پہاڑ ھے یہ میرے انتظار کا ثبوت ہے۔ تو کیا تم واقعی قیام کی غرض سے نہیں آئے تھے؟ لیکن تمہاری آنکھیں تو کچھ اور کہتی ہیں۔ اتنے چپ کیوں ہو اے رفیقان سفر
کچھ تو کہو
مسافر نے جھیل کے پانی کو ہاتھوں میں بھر کر اپنے لبوں سے لگا لیا اور باقی پانی کو اپنے پورے چہرے پر مل لیا۔ مسافر کی سرخ ہوتی آنکھوں سے کچھ آنسوں گر کر جھیل کے پانی میں شامل ہوگئے۔ جذبات اور محبت میں نکلے پانی کے وہ قطرے جھیل کے پانی کے ہر سوال کا جواب تھے۔ مسافر بھیگی آنکھوں سے پھولوں اور جھیل کو تکتا رہا اور ایک دم آنکھیں موند کر رخ موڑ لیا۔ خوبصورت اور دلنشین پھول مرجھائے سے ٹہنیوں پر لگے جھول رہے تھے۔ جیسے کوئی بہت پیارا بہت لاڈ سے ناراض ہو کر منہ پھلا لیتا ہے۔
جانے والے کی دوری کے ڈر سے انکی رنگت پھیکی پڑ گئی تھی۔ وہ چپ تھے لیکن انکی آنکھوں میں شکوہ تھا، ناراضگی تھی، خلوص تھا، اپنائیت تھی اور اور اور محبت تھی۔ مسافر کا دل مٹھی میں آگیا۔ اسنے پھولوں کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور نشانی کے طور پر چند پھول ٹہنیوں سے اتار کر اپنے پاس رکھ لیے۔ حلانکہ مسافر پھول کو ٹہنی سے الگ کرنے کی حق میں بالکل نہیں تھا لیکن پھول خود مسافر پر نچھاور ہونے کو تیار تھے۔ مسافر نے پھولوں کو احتیاط سے کف آئینہ میں محفوظ کیا اور اسی جانب چل دیا جہاں سے آیا تھا۔ مسافر کی چاہ میں مبتلا وہ پانی, پہاڑ اور پھول وہی رہ گئے۔ انکے نصیب میں ایک دشت نورد کے نقش کف پا آئے اور اس آوارہ گرد کے حصے میں محبت کے کچھ پھول۔
GIPHY App Key not set. Please check settings