Photos from Nain’s Photography’s post
سفر کا آغاز شروع کرتا ہوں.
میری زندگی کا سب سے خوبصورت اور سب سے خطرناک( Trek) جو ہم نے وادی کیدام بہرین سے شروع کرکے سر بانڈہ اور سربانڈہ جھیل، شیطان گوٹ جھیل، گودر پاس گودر جھیل اور گودر بانڈہ کی طرف کلام تک سفر تھا.
وادی سرفنقال (سر بانڈہ) کے خوبصورت عکاسی آپ سب کے سامنے
پیش کرتا ہوں. اور اُمّید ہے آپ سب کو بہت پسند آئگی.
اس وادی میں دو جھیل ہے ایک چھوٹا ہے. یہ جھیل پہلے آتا ہے. دوسرا جھیل بڑا ہے. دونوں جھیلے (Lakes) نہایت خوبصورت ہے. اس پر نظر پڑتے ہی انسان کی ساری تھکاوٹ ختم ہوجاتی ہیں.
موت۔۔۔ کسی بھی موت کے لئے کوئی جگہ یا وقت متعین نہیں ہوتا۔
آپ گیارہ ہزار فٹ سے بھی زیادہ اونچے کسی عمودی پہاڑی کے نہایت تنگ راستے پر، اور رستہ کیا ہے، نوکیلے اور خشک پتھروں سے بنا ہے، قدم رکھ کر چلے جارہے ہیں اور نیچے۔۔۔ کافی نیچے گہرائی میں موت اپنا منہ کھولے آپ کا منتظر ہے۔ یہاں معمولی سی لغزش یقینی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
موت۔۔۔ 14922 فٹ کی بلندی پر جبکہ آپ ایک ڈھلوانی گلیشئیر پر اتر رہے ہیں اور گلیشئیر کیا ہے؟ جگہ جگہ گہری اور خون کو خشک کر دینے والی دراڑیں ہیں اور اس گلیشئیر پر کبھی پھسل کر تو کبھی سنبھل کر آپ اترنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ کا انتظار کر رہی ہے۔
موت۔۔۔ اپنا مکروہ جبڑا کھولے کسی جھیل کو ایک طرف سے پار کرتے ہوئے دیوار کی طرح کھڑی پہاڑی پر بھی آپ کی منتظر ہے۔ یہاں معمولی سی غلطی کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
اور موت۔۔۔ پھولوں کی سیج پر بھی آجاتی ہے۔
تو پھر موت سے کیا ڈرنا…….
ایک پہاڑی پگ ڈنڈی پر ہم پانچ آوارہ گرد اپنی نئی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ بائیں طرف ایک تند و تیز نالہ مخالف سمت میں نیچے کی طرف بہہ رہا ہے۔ صبح کے کوئی دس بج رہے ہیں اور سورج ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ فضا میں دھوپ اور گرمی کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور دھوپ ہے کہ جس کی شدت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پسینہ ہے کہ ہمارے جسموں پر ہلکی دھاروں کی صورت میں بہہ رہا ہے۔ ساتھ ہی ہمارا ٹریک بھی مشکل ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہم پہاڑی پگ ڈنڈی پر مسلسل اوپر کی طرف چڑھ رہے ہیں۔
بحرین سے چھ کلومیٹر آگے کالام روڈ پر کیدام نامی ایک مشہور گاؤں، جہاں کیدام نالہ دریائے سوات میں گر رہا ہے، سے ہمارے ٹریک کا آغاز ہوجاتا ہے۔ سفر لمبا اور تھکا دینے والا ہے۔ منزل، شیطان گوٹ جھیل اور وہاں سے ایک مشکل گلیشئیل پاس کراس کرکے گودر جھیل سے ہوتے ہوئے نیچے اتر کر کالام کی طرف ہے۔
سفر کے آغاز میں ہی ہمارا برا حال ہو گیا۔ ایک تو مسلسل چڑھائی کی صورت میں ہمارا سفر، اوپر سے دھوپ کی شدت۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد بس اتنا ہوگیا کہ جنگل شروع ہوا اور اب ہم درختوں کے سائے میں سفر کرنے لگے۔ ہم چلتے گئے۔ سہ پہر تین بجے ہمیں بھوک کا احساس ہوگیا۔ ایک جگہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے رکے مگر جگہ مناسب نہیں لگی۔ کچھ کھائے پئیے بغیر ہی آگے کو روانہ ہوئے۔ ذرا آگے جا کر گھاس پھوس کے سرسبز میدان شروع ہوئے۔ تیز دھار پانی کے نالے کے پاس سستانے کے لئے ہم بیٹھ گئے۔ پانی پیا، تصاویر لیں اور کچھ کھائے بغیر اگلے ہدف کی طرف روانہ ہوئے۔
پروگرام کے مطابق ہم نے سر بانڈہ جھیل پہنچ کر رات اُدھر گزارنی تھی مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ ٹریک کے آغاز میں ہی ہم صحیح سمت کا تعین نہیں کر سکے اور لمبے اور مشکل رستے پر چل دئیے۔ چھ بجے کے لگ بھگ ہم ایک خوبصورت بانڈہ (چراگاہ) پہنچ گئے۔ یہاں چرواہوں کے چار پانچ گھر تھے۔ ہلکی بارش شروع ہوئی۔ موسم نہایت خوشگوار تھا۔ ہوا میں خنکی تھی۔ یہاں ہماری ملاقات فیصل خان سے ہوئی۔ Faisal Khanفیصل خان کیدام کا رہنے والا ایک ہنس مکھ اور خوش مزاج نوجوان ثابت ہوا۔ وہ بھی تفریح طبع کے لیے آیا ہوا تھا۔ یہاں اس کے کچھ قریبی رشتے دار تھے، وہ ان کے پاس آیا ہوا تھا۔ اس جگہ کا نام فیصل نے جبہ بانڈہ بتایا۔ فیصل خان سے معلوم ہوا کہ سر بانڈہ ابھی کافی دور ہے اور یہ کہ ہم آج ادھر نہیں پہنچ سکتے۔ ویسے بھی شام ہونے کو تھی۔ ہم نے رات یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ خیمے لگوائے اور باتیں کرنے لگے۔ فیصل خان کے رشتے داروں نے ہمیں چائے پلائی اور رات کے کھانے کا کہہ کر چلے گئے۔ ہوا میں خنکی بڑھتی گئی۔ مقامی بچوں کے تعاون سے آگ کا الاؤ روشن کیا۔ الاؤ کے پاس بیٹھ کر ہم باتیں کرنے لگے۔ نماز پڑھی۔ اسی دوران کھانا بھی آگیا۔ ساتھ میں چائے آئی۔ یقیناً یہاں کے مقامی باشندے بہت مہمان نواز ہیں۔ رات سر پر تھی۔ ہم سو گئے۔
اگلے سویر پانچ بجے جاگ کر نماز پڑھی، جلدی میں چائے پی کر روانگی اختیار کی۔ شیطان گوٹ جھیل سے بہتے پانی کے نالے کے ساتھ سفر جاری رہا۔ کئی بانڈے پار کر کے ہم ایک خوبصورت اور کافی بڑے آبشار پر پہنچ گئے۔ آبشار کے بائیں جانب ایک ڈھلوانی اور کافی حد تک عمودی راستے پر چڑھ کر ہم آخرکار سر بانڈہ پہنچ گئے۔
قریباً ایک سال پرانی بات ہے۔ کیدام کے رہنے والے ایک بابا جی جو کہ اپنی بھیڑ بکریاں چرانے اور لکڑیاں کاٹنے جنگل کی طرف گئے تھے، پر اچانک ریچھ نے حملہ کر دیا۔ بابا جی اس حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اپنی بچاؤ کے خاطر بابا جی نے ریچھ پر کلہاڑی کا وار بھی کیا مگر ریچھ اس کے وار سے بچ گیا۔ ریچھ کے بھر پور وار سے بابا جی کا برا حال ہو گیا اور وہ موت کے دھانے پر پہنچ گئے۔ کسی نہ کسی طریقے سے گاؤں کے لوگوں نے بابا جی کو ہسپتال پہنچا کر اس کی جان بچائی۔ بابا جی اب بھی ایک آنکھ سے کانے ہیں اور ان کا آدھا چہرہ فالج زدہ لگ رہا ہے اور سر بانڈہ میں ہماری ملاقات اس تاریخی بابا جی سے ہوئی۔ سر بانڈہ جھیل کے پاس ہی بابا جی اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ گرمیاں یہاں گزار کر جاڑوں کے موسم میں وہ کیدام گاؤں کا رخ کرتے ہیں۔ بابا جی نے ہماری خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اُن کی مہمان نوازی نے ہمیں کافی متاثر کیا۔ دوپہر کا کھانا ان کے ہاں کھا کر، اور کیا ہی کھانا تھا، تازہ مکھن، دھی، لسی، شوربہ بوٹی، نان اور چائے، ہم اگلے ہدف کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارے پاس سوائے دعاؤں کے اور شکریہ کے بابا جی کے لیے کچھ نہیں تھا۔
سر بانڈہ جھیل تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اوپر سے یہ جھیل ایک دُم دار ستارے کی مانند لگ رہی ہے۔ جھیل کنارے ایک چھوٹے مگر خوبصورت چراگاہ میں سے گزر کر ہم شیطان گوٹ جھیل کے راستے پر پہنچ گئے۔ چڑھائی شروع ہوئی۔ بڑے بڑے پتھروں نے اس ٹریک کو کافی حد تک مشکل بنایا ہوا تھا۔ شیطان گوٹ جھیل پہنچتے پہنچتے ہمارا برا حال ہوگیا۔ شیطان گوٹ جھیل کا پانی آبشاروں اور جھرنوں کی صورت میں بہہ کر سر پنقال( سر بانڈہ)جھیل پہنچتا ہے اور سر بانڈہ جھیل سے کیدام نالے کی صورت میں نیچے کی طرف رواں رہتا ہے۔
(جاری)
نوٹ: سر بانڈہ جھیل سے شیطان گوٹ جھیل اور پھر شیطان گوٹ۔ گودر پاس کی تصاویر، تحریر کے ساتھ اگلی نشست میں پوسٹ کرونگا۔ شکریہ
اس ٹریک میں ہمارے ساتھ
Saleem Khan Wanakhel, Murad Ali, Hussain Ali,Nasar Ali Hai.
GIPHY App Key not set. Please check settings