Rest in peace Tomek Mackiewicz
By – IZHAR CHAUDHRY
اور کل رات نانگا پربت نے ایک اور روح کو اپنے اندر سمو لیا۔۔۔
ٹومیک، جو سردی میں نانگا پربت کو سر کرنے کا خواب لیے چھٹی بار اُس کے در پر آیا تھا۔۔ پچھلی پانچ دفعہ میں قاتل پہاڑ نے اسے واپس جانے دیا۔۔۔مگر اس بار وہ مہربان ہوا اور ٹومیک کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔۔
اور ٹھہرایا بھی ایسے کہ پہلے نانگا پربت کی سفید برفوں نے ٹومیک کی بینائی سلب کر لی، تا کہ اُس کے پردہِ بصارت پر جو آخری تصویر ہو وہ پہاڑ کی ہو۔۔ اس کے بعد وہ کچھ نہ دیکھے۔۔ پھر اس چوڑے شانوں والے قاتل نے اس نوجوان کے ہاتھ پاؤں مفلوج کر دیے۔۔تاکہ ٹوم کے ہاتھوں پر آخری لمس صرف پہاڑ کا ثبت ہو۔۔۔اس کے کسی شے کو چھونے کا احساس باقی نہ رہے اور بالآخر اسے چلنے سے معذور کر دیا کہ وہ یہیں رہ جائے۔۔ بس اب روز روز کا آنا جانا چھوڑ دے اور سکون سے یہیں لیٹ جائے۔۔۔
ٹومیک کی ساتھی الزبتھ اسے 7200 میٹر تک اتار لانے میں کامیاب ہو سکی۔۔ اس کے بعد الزبتھ نے کیمپ لگا کر ٹوم کو وہاں ٹھہرایا اور خود 6700 میٹر تک نیچے اتر آئی۔۔ کس دل گردے سے اس نے اپنے ساتھی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہوگا یہ صرف وہی جانتی ہے۔۔ یہ پہاڑ واسیوں کے کھیل ہیں۔۔ ہم جیسے کور ذوق لوگ کیسے ان فیصلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔۔
الزبتھ کو جن چار لوگوں نے جس طرح سے اپنی جان پر کھیل کر راتوں رات ریسکیو کیا وہ ایک الگ داستان ہے۔۔مگر میں سوچتا ہوں کہ الزبتھ جب ٹومیک کو چھوڑ کر چلی گئی ہوگی اور وہ آنکھیں موندے کیمپ میں لیٹا ہوگا۔۔ اور وہ جانتا ہوگا کہ اب اسے بچانے کوئی نہیں آئے گا۔۔۔ اور لحظہ لحظہ رات ڈھلتی ہوگی۔۔ 7000 میٹر کی بلندی پر کالے سیاہ پہاڑ کے سینے پر وہ اکیلا کیمپ میں لیٹا لمحہ لمحہ اپنی طرف بڑھتی ہوئی موت کا انتظار کرتا ہوگا۔۔ ہوا کے شور سے جب کیمپ کے پردے سرسراتے ہوں گے تو اسے ایک پل کے لیے محسوس ہوتا ہوگا کہ شاید کوئی مجھے بچانے آیا ہے۔۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ مسکرا دیتا ہوگا۔۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔
رات بڑھنے کے ساتھ کیمپ کے پردے پر برف گرنے کی آواز آنے لگی ہوگی۔۔ وہ تھوڑا سرک کر سلیپنگ بیگ کے اندر دبک گیا ہوگا۔۔۔ اسے خبر ہے کہ اب جانا ہے۔۔۔برف کے ساتھ برف ہو جانا ہے۔۔اس نے آنکھیں موند لی ہوں گی اور مسکرایا ہوگا۔۔۔ اور شاید نانگا پربت کو مخاطب کر زیرِ لب بڑبڑایا بھی ہو کہ “بالآخر تم جیت ہی گئے۔۔آخر تم نے اپنی بات منوا ہی لی۔۔ آخر تم نے مجھے یہاں روک ہی لیا۔۔”
۔۔۔
رہے نام اللہ کا
“۔۔ یہ پہاڑ واسیوں کے کھیل ہیں۔۔ ہم جیسے کور ذوق لوگ کیسے ان فیصلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔۔”
کوہ پیمائی اک جنوں کی انتہا ھے کہ اس پر خطر شوق مین جان کو پہلی شرط مانا جاتا ھے ۔ اور شرط بھی انسان اپنے بے بصاعت جسم کی مہیب برفوں کے موت اسا پہاڑوں سے بدتتا ھے ۔ اور جیت اکثر پہاڑ کی ھوتی ھے اگر پہاڑ نانگا پربت ھو ۔ برفوں کی موت لمحہ لمحہ کی سست موت ھوتی ھے جس میں شاید موت مزے لے لے کر انسان کو مارتی ھے لیکن موت کو علم نہیں کہ اس کھیل میں تو جان ثانوی ھی نہیں آخری حیثیت رکھتی ھے ۔ کوہ نورد بلندیوں کا مشتاق ھوتا ھے اور موت نے آخر اسے اوپر بلندیوں پر لے جانا ھوتا ھے ۔ جہاں کوہ پیما کی روح سب سے آسودہ رھتی ھو گی کہ سب بلند ترین چوٹیاں اس کے نیچے نگاہ میں ھوتی ھیں ۔ سیلیوٹ ٹومیک
Pahar Aur insan ke Darmian ju jang hoti hian
Jeet Hmesha pahar ke hoti hian
Mountaineers are born to die in that visible world but to live in mountains forever…
These people’s are the example of life
Thanks for such excellent worded compliments for the one who loved high altitude and decided to rest there for ever
I know the feeling of Mountaineer
I was buried under Avalanche at Quide Post in 1987 .
Thank Allah we were rescued after 07 hours .
He died there? ohh shit Rip
Latif Khann
RIP
Rip
Rest In Peace
This really tragedy
imunexpressable
RIP
Aziz Mehr
Zaman Duggal
Anns Zaffar
Mazhar Lashari
RIP
Great effort
Basharat Ali