in

Photos from Nain’s Photography’s postشیطان گوٹ جھیل کی بعد سب سے خطرناک راستہ شر

Photos from Nain’s Photography’s post




شیطان گوٹ جھیل کی بعد سب سے خطرناک راستہ شروع ہوا۔ اور اتنا بڑا گلیشئر میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا. اب گودر پاس ایک طلسم کدہ، ایک خواب یا حقیقت

میں اس وقت 14,922 فٹ کی بلندی پر کھڑا ہوں اور میرے سامنے برف کا ایک طلسم کدہ ہے۔ برف کا بہت بڑا میدان ہے۔ ایک وسیع لینڈ اسکیپ ڈھلوانی صورت میں نیچے کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔ دائیں اور بائیں عجب ساخت کی چھوٹی بڑی پہاڑی چوٹیاں نظر آتی ہیں اور میری کیفیت اس بندے سے مختلف نہیں ہے جو راستہ بھول کر کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہو۔ جسے جانا کہیں اور تھا اور جو غلطی میں شاید کہیں اور پہنچ گیا تھا۔ وہ ایک خواب تھا یا حقیقت تھی، نہیں پتا۔ چند لمحات تک بے یقینی کی کیفیت میں، میں کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ مجھے آگے بڑھنا ہے یا نہیں بڑھنا ہے
اور پھر میں نے اس طلسم کدے میں قدم رکھ دئیے اور ایک خواب کی سی حالت میں چلنے لگا۔ چلنا کیا تھا، اترنا تھا بس۔ چند قدم چل کر مجھے لگنے لگا کہ برف میں اترنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ پاؤں پھسلنے لگے اور میں نے اپنے بیگ سے کرمپان نکال دئیے۔ جوتوں تلے کرمپان باندھ کر بڑے اطمینان سے میں اترنے لگا۔ یہ گلیشیئر گودر گلیشیئر کہلاتا ہے یا شاید شیطان گوٹ گلیشیئر کہلاتا ہے۔ شیطان گوٹ جھیل کے اوپری پاس پر پہنچنے کے بعد اور مزید ایک گھنٹہ سخت چڑھائی چڑھنے کے بعد جب بالکل ٹاپ پر پہنچا جاتا ہے تب یہ گلیشیئر شروع ہوتا ہے۔ کافی دور بائیں ہاتھ پر گلیشیئر کے اُس پار ایک جھیل نظر آتی تھی۔ اُس سے ذرا آگے اوپر کی طرف ایک اور جھیل نظر آتی تھی۔ سلیم بھائی نے بتایا کہ یہ بے نام جھیلیں ہیں اور بظاہر قریب نظر آ رہی ہیں مگر کافی دور ہیں اور ادھر تک پہنچنا کافی کٹھن ثابت ہوگا۔ گلیشیئر میں بڑے بڑے کریواسز نظر آتے تھے۔
ہم نے گودر جھیل کے لئے اترنا شروع کیا۔ بظاہر ہم کافی اطمینان سے اترتے تھے مگر اطمینان کہاں تھا۔ ہم موت کے دھانے پر چل رہے تھے۔ نیچے موت تھی۔ جگہ جگہ گلیشیئر میں بڑے بڑے شگاف نظر آتے تھے اور جنہیں پھلانگتے ہوئے ہمارا خون خشک ہوتا تھا۔ برف کے سفید چادر پر پانی کے شفاف چشمے چلتے تھے۔ ان چشموں کا پانی زمرد کی رنگت لیے ہوئے تھا۔ ہم آدھا گلیشیئر پار کر چکے تھے کہ اچانک بالکل سامنے نیچے کی سمت گودر جھیل کا پہلا منظر دکھائی دینے لگا اور ہمیں خوشی و مسرت کا احساس ہونے لگا۔ جھیل ابھی کافی دور تھی۔ ہم اترتے رہے اور پتا نہیں کب تک ہم خون کو خشک کر دینے والی دراڑیں پھلانگ کر اور پانی کے چشمے پار کر کے نیچے کی سمت اترتے رہے، شاید زمانے لگ گئے اور آخر کار جس جگہ ہم پہنچے وہ جھیل کا اوپری پاس تھا۔ یہاں گلیشیئر پگھل کر ندی نالوں کی صورت جھیل میں بہتا تھا۔ میں سب سے پہلے ادھر پہنچا تھا۔ دیگر ساتھی بہت پیچھے رہ گئے تھے اور دکھائی نہیں دیتے تھے۔ میں ندی کنارے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد پتا نہیں دل میں کیا خیال آیا۔ اپنا ٹریکنگ سوٹ اتار کر یخ بستہ پانی میں اتر گیا اور خوب جی بھر کے نہا لیا اور دوبارہ ٹریک سوٹ پہن کر دیگر ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔ وہ بھی پہنچ گئے۔ اب ہم گودر جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم گودر جھیل کنارے بیٹھے تھے۔ ہم نے جھیل کو دائیں یا بائیں طرف سے کراس کرنا تھا اور دوسرے کنارے پر پہنچنا تھا۔ اُدھر سے وادئ کالام کے لئے اترنا تھا۔
شیطان گوٹ جھیل سے گلیشیئل پاس کراس کرکے گودر جھیل تک پہنچنے میں ہمیں چار گھنٹے لگے۔
(جاری)

ہم نے جھیل کو کیسے پار کیا اور کس طرح اس کے دوسرے کنارے پہنچے۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ اگلی نشست میں تصاویر کے ساتھ پوسٹ کرونگا۔

Written by Swat Valley

What do you think?

122 Points
Upvote Downvote

Comments

Leave a Reply to AnonymousCancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

GIPHY App Key not set. Please check settings

2 Comments

Loading…

0