in

تحریر و عکاسی: حسین علی ٹیم: ٹرییکنگ سوات ویلی زمانہ: 25 اگست 2018گودر جھیل سے…

تحریر و عکاسی: حسین علی
ٹیم: ٹرییکنگ سوات ویلی
زمانہ: 25 اگست 2018

گودر جھیل سے کالام تک

موت۔۔۔ اپنا مکروہ جبڑا کھولے کسی جھیل کو ایک طرف سے پار کرتے ہوئے دیوار کی طرح کھڑی چٹان نما پہاڑی پر آپ کی منتظر ہو سکتی ہے۔ یہاں معمولی سی غلطی کی بھی گنجائش نہیں ہوتی اور۔۔۔
اور اس وقت ہم گودر جھیل کو کراس کرتے ہیں۔ ہم نے جھیل کنارے بیٹھ کر فیصلہ کر لیا ہے کہ دائیں سمت جو کھڑی دیوار ہے اور بڑی بڑی چٹانیں ہیں اور جن میں جگہ جگہ سبزہ اگا ہوا ہے اور چھوٹے چھوٹے سنگریزے ہیں اور جہاں بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اُسی رستے سے جھیل کو کراس کر کے ہم نے اُس پار جانا ہے۔ یہ بڑا چیلنجنگ ٹریک ہے۔
گودر وادئ کالام کے مغربی پہاڑوں میں تقریباً 12,500 فٹ کی بلندی پر واقع ایک گول مٹول سی جھیل ہے۔ اس کا پانی سبز مٹیالے رنگ کا ہے اور کالام بازار سے براستہ جلبنڈ گاؤں اس کا ٹریک شروع ہوتا ہے۔ ٹریک کافی سخت اور پر خطر ہے اور جھیل تک پہنچنے میں آٹھ سے دس گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم چونکہ کیدام سے سربانڈہ جھیل، شیطان گوٹ جھیل اور گودر گلیشیئر کراس کرکے گودر جھیل پہنچے تھے اس لئے ہم نے جھیل کے اُس کنارے جاکر نیچے وادئ کالام کی طرف اترنا تھا۔
ہم نے دائیں طرف سے جھیل کو کراس کرنا شروع کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک اونچی کھڑی دیوار ہے اور بڑی بڑی چٹانیں عموداً کھڑی ہیں اور ان چٹانوں میں تھوڑا بہت سبزہ اگا ہے اور سنگریزے ہیں۔ سبزے کو پکڑ کر اور چٹانوں میں اپنے بوٹ ٹھونس کر ہم جھیل کو کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم جیسے ہوا میں معلق ہیں اور نیچے چالیس پچاس فٹ کی گہرائی میں جھیل ہے۔ یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ غلطی کر بیٹھتے ہیں اور سیدھا جھیل میں پہنچتے ہیں۔ یقیناً یہ ہماری حماقت تھی۔ ہم بائیں جانب سے بھی جھیل کو کراس کر سکتے تھے یا شائد اُدھر بھی یہی صورتحال ہوتی۔ بہرحال ہم نے آگے بڑھنا تھا اور ہم آگے بڑھتے تھے اور موت سے کھیلتے تھے اور موت کو شکست دیتے تھے۔ ایک جگہ ایک کھڑی چٹان کو میں کراس کرتا ہوں اور سامنے دیکھتا ہوں تو روح کو فنا کردینے والی گہری کھائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اب جو پیچھے دیکھتا ہوں تو واپسی ناممکن نظر آتی ہے۔ نیچے جھانکتا ہوں تو جھیل کو ایک ایسی وسعت میں لیٹے دیکھتا ہوں جس کی حدوں تک جاتے جاتے آنکھیں دھندلاتی ہیں۔ یہاں یقینی طور پر مجھے موت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور میں۔۔۔
موت کو شکست دینے لگتا ہوں۔ آہستگی سے اور رینگتے ہوئے کہ اس وقت میں رینگنے والا ایک حقیر کیڑا ہوں، میں اوپر کی طرف چڑھتا ہوں۔ سات آٹھ فٹ چڑھنے کے بعد مجھے آگے بڑھنے کا راستہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ آگے بڑھتا ہوں اور موت کو شکست دیتا ہوں۔ ٹھیک دو گھنٹے بعد جب ہم جھیل کے دوسرے کنارے پہنچ کر پیچھے مڑ کر اس راستے کو دیکھتے تھے، جس پر چل کر یا رینگ کر ہم آئیں تھے تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ہم نے یقینی طور پر موت کو شکست دی تھی۔
ہمارے دو ساتھی ناصر علی اور مراد علی پتا نہیں کہاں رہ گئے تھے۔ ہم بار بار اس راستے کو دیکھتے تھے جس پر ہم آئے تھے۔ ڈھائی گھنٹے تک ہم ان کی راہ تاکتے رہے، ان کا انتظار کرتے رہے، مگر ان کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ ہمیں فکر ہونے لگی۔ یہاں انہیں ڈھونڈنا بھی نا ممکن تھا۔ ڈھونڈتے تو کہاں ڈھونڈتے انہیں۔ آخر ڈھائی گھنٹے انتظار کے بعد ہم نے شکستہ دل کے ساتھ وادئ کالام کے لئے اترنا شروع کیا۔ یہاں گودر جھیل کا پانی ندی کی صورت نیچے وادیوں کی طرف بہتا تھا۔ سہ پہر تین بجنے والے تھے۔ ہم نے اندازے سے راستے کا تعین کرتے ہوئے اترنا شروع کیا۔ پتھریلے راستے پر ہم اترتے رہے۔ ہمارے پاؤں دُکھتے تھے اور جسم تھکتے تھے مگر ہم نے اترنا تھا۔ کسی ایسی جگہ پہنچنا تھا، جہاں اطمینان سے ہم رات گزار سکے۔ دو ڈھائی گھنٹے اترنے کے بعد ہم گودر بانڈہ پہنچے اور۔۔۔
گودر بانڈہ کیا تھا؟
ایک وسیع سبزہ زار، درمیان میں جس کے شفاف نیلگوں پانی کی نہریں چلتی تھیں۔ یہ بہت زبردست جگہ تھی۔ یہاں ہمارے ساتھی ناصر علی اور مراد علی ہم سے ملے اور انہیں سلامت دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ گودر جھیل کو کراس کرتے وہ دونوں پہاڑی کے بہت اونچائی پر پہنچے تھے اور ادھر سے وہ جھیل کے دوسرے کنارے اترنے کی بجائے سیدھا گودر بانڈہ اترے تھے۔
یہاں کالام سے آئے ہوئے چند لڑکوں سے ہماری ملاقات ہوئی۔ وہ سٹوڈنٹ تھے اور سیر سپاٹے کے لئے گودر بانڈہ آئے تھے اور گودر جھیل جانا چاہتے تھے۔ ہم نے دو دن سے ڈھنگ کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ ان لڑکوں نے کالام کے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری کافی خاطر مدارت کی۔ بریانی پکا کر ہمیں کھلائی۔ اپنے ساتھ لائے کولڈ ڈرنکس ہمیں پیش کئے اور ہمیں بتایا کہ ذرا آگے جاکر رات گزارنے کے لئے چرواہوں کے بنائے ہوئے دو تین کچے کوٹھے موجود ہیں، جن میں ہم رات گزار سکتے ہیں۔ ہم نے ایسے ہی کیا اور ان کوٹھوں تک پہنچ کر اور انہیں صاف کرکے ہم نے انہیں رات گزارنے کے قابل بنا دیا۔ لکڑیاں اکھٹی کیں اور سردی سے بچاؤ کی خاطر آگ سلگا لی۔ کھانا تو ہم کھا چکے تھے۔ سلیپنگ بیگ نکال کر سونے کی تیاری کرنے لگے۔ وہ ایک پرسکون رات تھی اور ہمیں خوشی تھی کہ ہم اپنا 90% ٹریک کامیابی کے ساتھ مکمل کر چکے تھے۔ اگلی صبح خوشگوار تھی۔ موسم صاف تھا۔ جلدی میں اپنا سامان باندھ کر ہم نے کالام کے لئے اترنا شروع کیا۔ دو ڈھائی گھنٹے تک ہم اترتے رہے۔ گودر جھیل ٹریک کافی سخت ہے اور شاید اسی لیے بہت کم لوگ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں راستہ ختم ہو جاتاہے اور ایک پہاڑی چٹان پر لکڑی کی سیڑھیاں لگا کر گزرگاہ بنائی گئی ہے۔ سیڑھیوں پر اتر کر ہم گودر نالے کے ساتھ ساتھ ایک گھنٹے تک چلتے رہے اور ایک ایسے خوبصورت گاؤں پہنچے، جہاں ہر طرف ہریالی تھی۔ اینٹوں کے بنے چند گھر تھے، جن کے سامنے لکڑی کے جنگلے بنائے گئے تھے۔ یہاں سیب کے درختوں کی بہتات تھی۔ درختوں پر سیب لٹکتے تھے۔ اس گاؤں کا نام مقامی لوگوں نے شاید ارین یا اسی طرح کا کوئی اور نام بتایا تھا۔
دس بجے کے لگ بھگ ہم کالام بازار پہنچے اور یوں چار دن پہاڑوں میں گزار کر ہم مہذب دنیا میں پہنچ گئے یا شاید مہذب دنیا کی سیر کر کے ہم غیر مہذب دنیا میں واپس آگئے۔











Written by Trekking Swat Valley

This page is to promote tourism in Swat valley. We will post images of beautiful explored and unexplored places of the Swat valley, KPK, P A K I S T A N

What do you think?

123 Points
Upvote Downvote

Comments

Leave a Reply to AnonymousCancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

GIPHY App Key not set. Please check settings

6 Comments

Loading…

0