in

Da Reyasat Swat Yaduna added 3 new photos.

Da Reyasat Swat Yaduna added 3 new photos.




Written by Atta Ullah

What do you think?

122 Points
Upvote Downvote

Comments

Leave a Reply to AnonymousCancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

GIPHY App Key not set. Please check settings

3 Comments

  1. 1897ء میں سرتور فقیر نامی شخص کی سرکردگی میں ملاکنڈ ڈویژن کے مسلمانوں نے انگیریز سامراج کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ سرتور فقیر کا دعوی تھا کہ وہ انگریزکو ملاکنڈ بلکہ پشاور سے بے دخل کرے گا۔ ابتداء میں انگریزوں نے اس تحریک کو درخور اعتنا نہ سمجھا لیکن جولائی 1897ء کے اختتام تک حالات نے نزاکت اختیار کی۔ چنانچہ انگریز نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے مردان سے گائیڈز بلا لیے اور فوج کو چوکس کیا گیا۔ 26 جولائی 1897 کو سرتور فقیر نے چکدرہ کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا۔ اس کے جھنڈے تلے قبائل جمع ہوتے گئے اور کارواں بنتے بنتے ایک بڑے لشکر کی شکل اختیار کرگیا۔ ادھر انگریز بھی باخبر تھا اور رفتہ رفتہ فوج کو حرکت دیتے ہوئے ملاکنڈ کی طرف گامزن ہورہا تھا۔یکم اگست تک ہندوستان سے بلائی گئی فوج چکدرہ پہنچ چکی تھی۔
    اس دن ملاکنڈ میں گھمسان کا رن پڑا اور دونوں طرف سے شدید لڑائی لڑی گئی۔ اگست 1897ء کی ابتداء میں ایک ریزرو بریگیڈ کی تشکیل کا فیصلہ ہوا تاکہ فیلڈ فورس کی مدد کی جاسکے اور وادی سوات میں آخری مہم کو طور پر کارروائی کرکے بغاوت پر آمادہ قبائل کو سزا دی جاسکے۔ انگریز 19 اگست 1897 کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ پہنچے۔ اس مہم میں انہیں کئی مقامات پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بہت جانی نقصان اٹھایا۔ایچ ایل ایس مکلین اور لیفٹیننٹ آر ٹی گریوز اس مہم کے دوران مارے گئے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کے کئی آفیسر اس لڑائی میں کام آئے۔ سوات کا گیٹ وے لنڈاکی میں ایک شدید لڑائی ہوئی جس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ برطانوی حکومت نے اس لڑائی میں شریک لیفٹیننٹ کرنل ایڈمز اور وسکاؤنٹ فنکاسل کو برطانیہ کاسب سے بڑا فوجی اعزاز “وکٹوریہ کراس” دیاجبکہ پانچ دیگر آفیسرز کو آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔کہتے ہیں کہ سرتور فقیر کی کمانڈ میں شروع ہونے والی اس تحریک نے تاج برطانیہ کے لیے یہ سال ایک مشکل سال بنادیا تھا۔
    ونس چرچل برطانیہ کا مشہور زمانہ وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اس لڑائی میں بذات خود شریک تھا۔ آج بھی چکدرہ میں اس کے نام سے چرچل پیکٹ کے نام سے ایک پہاڑی چوٹی موسوم ہے۔ لیکن اس خیال کو رد کیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے دوران چرچل ملاکنڈ تو کیا سرے سے ہندوستا ن میں موجود نہیں تھا۔ وہ کہیں بعد میں ملاکنڈ فورس میں شامل ہوگیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فورس میں بھی وہ سپاہی یا کسی عہدیدار کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک نامہ نگار کی حیثیت سے شامل رہا۔ سربنڈن بلڈ اس وقت ملاکنڈ فورس کا سربراہ تھا۔ اس کے عملے میں چرچل کے لیے کوئی اسامی نہیں تھی۔ چنانچہ کمانڈر بلڈ نے اسے نامہ نگار کی حیثیت سے ملاکنڈ آنے کی دعوت دی۔ چناچہ چرچل کی ماں لیڈی رینڈولف چرچل نے ڈیلی ٹیلیگراف کے ایڈیٹر سے کہہ کے یہ انتظام کرایا کہ وہ اس کی تحریر کردہ رپورٹوں کو فی کالم 5 پونڈ کی ادائیگی کرکے شائع کریں گے۔ سوات کے مہم کے بارے میں چرچل کے کچھ رپورٹس پائے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مہم میں وہ نامہ نگار کی حیثیت سے بھی شامل نہیں تھا بلکہ وہ بعد میں آکر ملاکنڈ فورس میں نامہ نگار کی حیثیت سے شامل ہوا۔ اس کی تحریر کردہ رپوٹیں جو اخبارات میں شائع ہوئیں وہ دوسروں سے سن کر لکھی گئی ہیں۔ وہ اس جنگ کا عینی شاہد نہیں تھا اس لیے اس کی رپورٹیں بھی اس درجے کی شمار نہیں کی جاسکتیں جس طرح ایک عینی شاہد واقعے کی منظر کشی کرتا ہے۔(بحوالہ ریاست سوات 1915 تا 1969 از ڈاکٹر سلطان روم)
    اس ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی مشہور شخصیت کی طرف کسی جگہ یا واقعے کو منسوب کرتے ہوئے تاریخی روایت کو سرے نظرانداز کرجاتے ہیں۔ انہیں اس بات میں فخر کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ کسی جگہ کو کسی تاریخی شخصیت کی طرف منسوب کیا جاسکے۔ پھر اس کے لیے تاریخ کی صحیح وسقم سے ہٹ کر ایسے واقعات گھڑے جاسکیں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ شخصیت اس جگہ میں کوئی اہم کام کرنے آیا تھا۔ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ اس طرح کی خودساختہ واقعات گھڑ کر وہ مستقبل میں تاریخ کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ وہ مؤرخ کی آنکھ میں دھول جھونک کر خودساختہ کہانیوں کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بعدکہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی بات سامنے آہی جاتی ہے جو افسانوں کا باطل کرکے حقیقت کو سامنے لانے کا سبب بن جاتی ہے۔ تقریبا ہر دور میں تاریخ کے ساتھ یہ ظلم روا رکھا گیا ہے۔(صلاح الدین ایوبی)

Loading…

0